مؤناتھ بھنجن2جولائی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)علم زندگی ہے اور جہالت موت ، جاہل انسان کو بڑی آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن پڑھے لکھے کے ساتھ ایساکرنامشکل ہے ترقی اورسائنس کے اس دور میں علم سے دوری پوری قوم کے لئے نقصاندہ ہے ان خیالات کا اظہار سرسید اویرنس فورم کے صدر اور مسلم یونیورسٹی کے معروف استاد پروفیسر شکیل صمدانی نے بلال مسجد کے وسیع صحن میں ’اسلام میں تعلیم اور تربیت کی اہمیت ‘ عنوان پر اپنے توسیع خطبہ میں کیا، انھوں نے کہا کہ مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی اور اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو ان کا ایمان مضبوط تھا، وہ قرآن سے جڑے ہوئے تھے اور تعلیم یافتہ تھے لیکن جیسے جیسے مسلمان تعلیم اور سائنس سے دور ہوتے گئے اقتدار بھی ان سے دور ہوتا چلا گیا اور حاکم کی جگہ وہ محکوم ہوگئے۔پروفیسر صمدانی نے اپنے خطاب کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مذہب اسلام نے تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی بہت زور دیا جب رسول اللہ نے مکہ میں اپنا مشن شروع کیا اس وقت صرف ۲۴ افراد خواندہ تھے لیکن ۲۳ سال کے محدود عرصہ میں ان کے تعلیمی مشن کی وجہ سے صرف جزیرۃ العرب میں لاکھوں افراد تعلیم یافتہ ہوچکے تھے یہ دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی مشن تھا، جس کی کوئی مثال آج تک دنیا پیش نہیں کرسکی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا ہی نتیجہ ہی تھا کہ صحابہ کرام نے دنیا کے گوشہ گوشہ میں علم کی شمع روشن کی اور ان کی تربیت یافتہ نسلوں نے دنیا کو پہلی بار بہت سے علوم سے آشنا کرایا۔انھوں نے مزیدکہاکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے خواتین بھی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور دنیا کا ہر کام کرسکتی ہیں۔ مہمان خصوصی پروفیسر شکیل صمدانی نے مزید کہا کہ مسلمانوں میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے اس صلاحیت کو صحیح سمت میں موڑنے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ہندستان کے مسلمانوں نے تعلیمی اورمعاشی سطح پرجوترقی کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ انھوں نے دستور کی دفعہ ۲۹ اور ۳۰ کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کا جال بچھادیا،شفا خانے، اسپتال، یتیم خانے اور اعلیٰ مدارس کا جال بچھا دیا، اردو زبان کو زندہ رکھا اور اپنی تہذیب کو فروغ دیا۔ شمالی ہندستان کے مسلمانوں کو بھی اسی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے ویسے یہ خوش آئند بات ہے کہ دھیرے دھیرے شمالی ہند کے مسلمان تعلیمی ادارے کھولنے کی طرف گامزن ہیں جس کی مثال ہمدرد یونیورسٹی، انٹیگرل یونیورسٹی، مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی، جامعہ ہدایہ جے پور، گلوکل یونیورسٹی،ایرا میڈیکل کالج وغیرہ ہیں۔ انھوں نے جلسہ میں موجود جم غفیر سے درخواست کی کہ وہ رسول اللہؐ کے تعلیمی مشن کو مسلمانوں کے کمزور طبقات تک لے جائیں اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی سمت قدم بڑھائیں۔ رمضان کے آخری عشرہ کے تعلق سے انھوں نے جلسہ میں موجود افراد سے وعدہ لیا کہ وہ چاند رات (عید کی رات) کو دعاء کا خوب اہتمام کریں اور اسے شب دعاء کے طور پر منائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شب کو بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور مغفرت کرتا ہے ایسی بابرکت اور شاندار رات کو فضولیات اور گپ شپ میں گزار دینا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ اخیر میں پروفیسر صمدانی نے کہا کہ ہمیں دستور ہند میں دی گئی مراعات کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ملی ہوئی آزادی کا جائز استعمال کرنا چاہئے۔ جمہوریت میں جو قومیں حکمت اور فراست کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرتی ہیں وہی کامیاب رہتی ہیں ہمیں اپنے ووٹ کا استعمال اس انداز سے کرنا چاہئے کہ ہماری اجتماعی قوت کا مظاہرہ ہو اور ہمیں ہمارے حقوق حاصل ہوسکیں۔ اردو زبان ہماری مادری زبان ہے ہمیں اس زبان کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ اس کو فروغ دینا ہے اور فروغ دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اردو زبان کو اپنے روزانہ کے کام کاج میں استعمال کریں اور کم سے کم ایک اردو اخبار اور ایک اردو رسالہ ضرور سے خرید کر پڑھیں۔ اردو اخبارات میں اپنی تجارت اور اداروں کے اشتہارات دیں تاکہ اردو اخبارات زندہ رہ سکیں۔ جلسہ کے صدارت کرتے ہوئے مولانا فیاض احمد قاسمی، امام جمعہ و خطیب مسجد بلال، منشی پورا نے پروفیسر صمدانی کے ذریعہ دیئے گئے پر مغز خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کے خطاب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جلسہ کو کامیاب بنانے میں جن حضرات نے اپنا تعاون دیا ان میں محمد شاداب ایڈوکیٹ، ڈاکٹر فیض الحسن، حاجی عرفان خان، ڈاکٹر جاوید، حلیمہ اسپتال کے مشہور سرجن ڈاکٹر اقبال احمد انصاری، محمد یوسف اقبال،عبداللہ صمدانی،اشتیاق احمد ایڈوکیٹ، مسجد کے مؤذن محمد انظر، شکیل احمد ٹی ٹی، ڈاکٹر اصغر صدیقی، ڈاکٹر عمر، حاجی شاہ عالم الفت، بلال احمد،محمد مرتضیٰ احمداورعبداللہ معروفی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔